Tuesday, May 15, 2018

بیروٹ کلاں کے علمی حوالے سے مختصر ترین علوی اعوان قبیلہ کے آخری ٹیچر
 فہیم احمد علوی
 بھی تدریسی فرائض سے سبکدوش
--------------------------
قمی کوٹ، آزاد کشمیر میں علوی آعوان قبیلہ پانچ صدیاں قبل کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران رنچن شاہ کے عہد میں آ کر آباد ہوا تھا
--------------------------
بیروٹ کے کاملال دھونڈ عباسی قبیلہ کے سردار محمود خان عرف بھاگو خان اور ان کے ساتھیوں نے علوی اعوانوں کے جد امجد مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی کو اہل خانہ سمیت کھوہاس، بیروٹ میں لا آباد کیا لائے اور ان کی اولادیں جائیداد سمیت جان، مال اور عزت و آبرو کی ضمانت کے تقاضوں کو آج تک نبھا رہی ہیں ۔
--------------------------------
اس قبیلہ نے بھی آج تک کاملال قبیلہ کے اعتماد، اعتبار اور مان کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی اور آج بھی دونوں قبائل ایک دوسرے کی عزت، حرمت اور آبرو کو سانجھا ہی سمجھتے ہیں ۔
--------------------------------
بد قسمتی سے نان بیروٹ پولیٹیکل کیریکٹرز نے دونوں قبائل میں دوریاں پیدا کی ہیں ۔۔۔۔ مگر بھوجل دل کے ساتھ پھر بھی دونوں قبائل سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کے سینے سے ٹھاہ کر کے لگنے کے متمنی ہیں ۔
--------------------------------
ہائر سیکنڈری سکول برائے طلباء بیروٹ کے ایس ایس سی ٹیچر فہیم احمد علوی کی تدریسی فرائض سے سبکدوشی کے ساتھ ہی حضرت مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ سے شروع ہونے والا درس و تدریس کا پونے دو سو سالوں سے زیادہ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے ۔
****************************
 تحقیق و تحریر
------------------------
محمد عبیداللہ علوی
****************************
فہیم احمد علوی کا ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ میں آخری دن ۔۔۔۔۔ ان کے اعزاز میں دی جانے والی الوداعی تقریب میں شرکاء کھانا تناول کر رہے ہیں
******************************* 
     بیروٹ کلاں کے علمی و ادبی حوالے سے مختصر ترین علوی اعوان قبیلہ کے آخری ٹیچر ۔۔۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔۔ بھی سلطنت علم و دانش سے سبکدوش ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس خاندان کی ابھی صرف دو بیٹیاں علم و ادب کے دو ایوانوں میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔ بیروٹ میں ہمارا 1836 سے شروع ہونے والا علم و دانش کا سفر ختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ سنبھال مالی باغ اپنا، ہم تو اپنے گھر چلے ۔۔۔۔۔۔؟
    اٹھارویں صدی کے بہلے ربع کے دوران ۔۔۔۔۔۔ بیروٹ میں آبادی کے بڑھ جانے سے یہاں کے دوسرے بڑے ڈھونڈ عبسی کاملال قبیلہ نے ضرورت محسوس کی کہ اب بگلوٹیاں، بیروٹ کی غوثیہ مسجد کے ساتھ ایک اور مسجد اور مدرسہ کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔ اس قبیلہ کے بزرگ تجارت کے سلسلے میں کشمیر آتے جاتے رہتے تھے اور آزاد کشمیر کے ضلع مظفر آباد کے قمی کوٹ گائوں کے علوی اعوان قبیلہ کے ہاں رکتے ۔۔۔۔ وہاں پر موجود مسجد میں نمازیں ادا کرتے اور فیوض و برکات سمیٹتے ۔۔۔۔ قمی کوٹ میں یہ قبیلہ پانچویں صدی کے کشمیر کے پہلے مسلم حکمران رنچن شاہ کے عہد میں وادی سون سکیسر، میانوالی سے آ کر آباد ہوا تھا اور اس کے ایک بزرگ قاضی حسان علوی کو مسلم کشمیر میں چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز کیا گیا تھا ۔۔۔۔ بیروٹ کے کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے سردار محمود خان عرف بھاگو خان (متوفی 1840ء) نے قبیلہ کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیا اور جرگہ کی صورت میں قمی کوٹ میں مولانا قاضی عبدالشکور علوی ؒ کے پاس آئے اور اپنا مدعا بیان کیا ۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو عرصہ سے جانتے تھے ۔۔۔۔ رات بھر اس پر فریقین نے غور کیا اور آخر فیصلہ ہوا کہ ۔۔۔۔ ان کے بڑے بیٹے ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ ۔۔۔۔ اہل بیروٹ کی دینی و علمی خدمت کریں گے ۔۔۔۔۔ دوسرے روز ان کی مستقل بیروٹ روانگی کے انتظامات کو آخری شکل دی گئی ۔۔۔۔ اس وفد کا ایک آدمی اسی روز بیروٹ روانہ کیا گیا تا کہ مولانا علویؒ کے قیام و طعام کا بندو بست کیا جا سکے ۔۔۔۔ قمی کوٹ میں مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ کے والد مولانا قاضی عبدالشکور علوی ؒاور ان کی برادری سے ایک معاہدہ بھی طے کیا کیا گیا جس کے مطابق ۔۔۔۔۔
***** بیروٹ کا کاملال قبیلہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ ، ان کے خاندن اور آنے والی نسلوں کو جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرے گا ۔۔۔۔ الحمد للہ کاملال قبیلہ نے اپنے پرکھوں کے وعدے کو لمحہ موجود تک نبھا رہا ہے)
***** میزبان قبیلہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ اور ان کے خاندان کو مالکانہ حقوق پر با پردہ رہائش، اناج کیلئے زرعی اراضی اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرے گا اور اس کے عوض وہ ان کی اولادوں کو مسجد اور مکتب کے ذریعے قرآن و سنت اور مروجہ روایتی تعلیم دینگے ۔۔۔۔ کاملال قبیلہ کے دیگر شادی بیاہ اور مرگ ماتمے کے مذہبی معاملات کی ذمہ داری بھی انہی کی ہو گی ۔۔۔۔ علوی عوان خاندان نے اپنی یہ مذہبی و علمی ذمہ داری ۔۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔۔ کی صورت میں لمحہ موجود تک بحسن و خوبی نبھائی ہے۔
    مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی: اپنی دوسری اہلیہ زلیخا اور چار بیٹوں ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی عبدالعزیز علوی (راقم السطور کے پڑدادا)، مولانا میاں قاضی شرف دین علوی (ٹیچر نور عالم علوی آف ترمٹھیاں کے پڑدادا)، مولانا میاں قاضی غلام رسول علوی (پی آئی اے والے نیاز حسین علوی کے پڑدادا) اور مولانا میاں قاضی اکبر دین علوی (ڈاکٹر مسعود علوی اور بیروٹ کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون ڈاکٹر طاہرہ ہارون کے نکڑ دادا) کے ساتھ بیروٹ آئے ۔۔۔۔ سینٹرل بیروٹ کی ڈھوک باغ میں ان کی رہائش کا بندو بست کیا گیا ۔۔۔۔ انہوں نے دوسرے روز ہی اس گھر کے ساتھ دوسرے گھر میں مدرسہ کی بنیاد رکھی، شام کو کھوہاس میں بیروٹ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ۔۔۔۔ اور مسجد کی تعمیر کا دن رات کام شروع ہو گیا اور ایک ہفتے بعد مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ نے پہلی اذان دی اور ظہر کی جماعت سے مسجد میں پنج وقت کی باجماعت نماز کا آغاز ہو گیا اور آج 180 برسوں بعد بھی اس مسجد میں ایک نماز کا تعطل نہیں آیا ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ اس وقت اسی کوہاس مسجد کی بائیں جانب کھجور کے درخت کی چھائوں میں ابدی نیند سو رہے ہیں اور پانچوں وقت کی نمازوں کی صورت میں ثواب ان کو ایصا ل کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ اللہ رب العزت مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ، سردار محمود خان عرف بھاگو خانؒ اور ان کے ساتھیوں کی قبروں کو نور علیٰ نور کرے اور انہیں جنت الفردوس میں رسول رحمت ﷺ کی ہم نشینی نصیب فرماوے ۔۔۔۔ آمین
    گزرنے کو تو 180 برس بیت گئے ہیں ۔۔۔۔ اس دوران اس علوی آعاون خاندان نے بیروٹ میں کولالیاں، دستیال برادری کی ڈھیری، جاوا سمیت دیگر مساجد کی خدمت کی ہے ۔۔۔۔ شرقی بیروٹ میں لمیاں لڑاں، چھپڑیاں اور میرے نیں کھیتر کی مساجد کی ذمہ داری بھی اسی خاندان کی رہی ہے ۔۔۔۔ جب 1899 میں ریالہ سے پہلا ورنیکلر پرائمری سکول بیروٹ شفٹ ہوا تو اس کے پہلے ٹیچر مولانا میاں قاضی محمد اسماعیل علوی نے ہیڈ ٹیچر کی صورت میں چارج سنبھالا اور اس سلسلے کے آخری ٹیچر ۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔ کی صورت میں آج سبکدوش ہور ہے ۔۔۔۔ یہی نہیں بلکہ جب 1915 میں پہلا پرائمری سکول برائے خواتین بیروٹ میں قائم ہوا تو ۔۔۔۔ اسی علوی اعوان خاندان کی بنی، کہو شرقی سے تعلق رکھنے والی ایک بہو اور سابق پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ برائے خواتین فرخ بی بی کی دادی صاحبہ ۔۔۔۔ عجائب بی بی ۔۔۔۔ پہلی ہیڈ ٹیچر کے علمی منصب پر فائز ہوئیں ۔۔۔۔ اس وقت بھی مولانا میاں قاضی محمد اسماعیل علوی مرحوم کی ایک دختر کوچک اور تین پوتیاں اہل بیروٹ کی علمی خدمات میں مصروف ہیں ۔۔۔۔ تا ہم یہ بات کہتے ہوئے مجھے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ ۔۔۔۔ بیروٹ کے غزنوی میں لمحہ موجود میں کوئی تڑپ ہے اور نہ ایاز ہی اپنی زلفوں میں کسی خم کی ضرورت ہی محسوس کر رہا ہے ۔۔۔۔ دونوں کی باڑیاں بنجر، دونوں راولپنڈی سے ہر روز بیروٹ آنے والے سوجی، چوکر اور میدہ نکلے آٹے، آلودہ پانیوں سے پرورش پانے والی سبزیوں، دالوں اور ہندوانوں کے ذریعے پرسوں کا متوقع روزہ کھولنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔ اسی کاملال قبیلہ کی پونے دو صدیاں بعد آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ڈھوک باغ میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی ہے ۔۔۔۔ یہ بات نہیں کہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی کی اولاد کی آبادی نہیں بڑھی ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ یہ ساری اولاد روزگار، تعلیم اور دیگر دنیاوی معاملات کے سلسلے میں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور اور کراچی شفٹ ہو چکی ہے ۔۔۔۔ بیروٹ میں چند گھر اس لئے رہ گئے ہیں کہ وہ بھی مقامی ملازمتوں یا روزگار کی وجہ سے مصروف ہیں لیکن سیاسی، قبیلائی اور معاشی حالات اس وقت جو رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ ان کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگلے 30 برسوں میں بوڑھے لوگ اپنی اولادوں کو بتایا کریں گے کہ ۔۔۔۔ بیروٹ میں بھی کوئی علوی اعوان قبیلہ ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔ یا فلاں گھر اس قبیلہ کی آخری نشانی ہے ۔۔۔۔ سدا بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ۔
-------------------------------
منگل15/مئی2018



No comments:

Post a Comment