سرکل بکوٹ کے انتخابات اور علوی اعوان خاندان
محمد عبیداللہ علوی
سرکل بکوٹ کے بلدیاتی انتخابات میں کوئی چھوٹی بڑی ایسی برادری نہیں جس کے اس الیکشن میں کم از کم ایک یا اس سے زیادہ امیدوار کھڑے نہ ہوں مگر ایک مذہبی اوراعلیٰ ترین ماڈرن تعلیم کی حامل ایک برادری ایسی بھی ہے جو سیاسی، سماجی، مذہبی، عمرانی اور تعلیمی تھنک ٹینک ہونے کی حیثیت سے امیدواروں کو نئے، پروگریسواور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ خیالات اور نظریات دے رہی ہے بلکہ اپنے الگ وجود کی وجہ سے سرکل بکوٹ میں علوی اعوان کے نام سے جانے جانیوالی یہ برادری بیروٹ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دینی اور ماڈرن علم کے خزانے لٹا رہی ہے، گزشتہ صدی کے پہلے عشرے تک اس برادری کے نوے فیصد افراد دینی علوم کی درس و تدریس سے وابستہ تھے، سینٹرل بیروٹ میں کھوہاس، لمیاں لڑاں، چھپڑیاں اور اکھوڑاں میں اس برادی کی دینی علمی تدریس اور خدمات کے لوگ آج بھی معترف ہیں ، اسی خاندان کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی 1828 میں کاملال ڈھونڈ عباسی خاندان (سابق ناظم آفاق عباسی اور حاضر سروس جرنیل مقصود عباسی) کے بزرگوں محمود خان(بھاگو خان)، عاقل خان اور دیگر کی دعوت پر بیروٹ تشریف لائے اور بیروٹ کی دوسری بڑی مسجد اور ایک عصری و قرآنی مدرسہ قائم کر کے تعلیم کو عام کیا جس کا سلسلہ 2005 تک جاری رہا، مئی 1866کو قائم ہونے والے دارالولوم دیوبندکے پہلے بیج کے طالبعلم حضرت مولانا دفترعلوی اسی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اگرچہ وہ نماز جمعہ کے معاملے میں حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی ؒ سے سخت اختلاف رکھتے تھے مگر ان کی مساعی جمیلہ سے قادیانیت کا شجرۃ الزقوم (کوڑا تے بس آلا بوٹا)سرکل بکوٹ میں پروان نہ چڑھ سکا، 1880, 90 1910میں سرکل بکوٹ کی مردم شماری اسی برادری کے بلکہ سرکل بکوٹ کےپہلےاعلیٰ تعلیم یافتہ شخص حضرت مولانا میاں محمد جی علوی نے کی تھی، آپ حضرت پیر بکوٹیؒ کے برادر نسبتی تھے، 1918میں اسی برادری کےمولانا میاں محمد سلیمان علوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے سرکل بکوٹ کے پہلے طالب علم کی حیثیت سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اسی برادری کے حضرت مولانا عبدالرحمان علوی جو پیر بکوٹی کے سوتیلے بیٹے تھے بیروٹ کے پہلے شہید جہاد کشمیر کی حیثیت سے 31جولائی 1931کو مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کے سامنے توہین قرآن کے خلاف احتجاج کرتے اور نماز جمعہ کی اذان دیتے ہوئے شہید کر دئے گئے، انہوں نے انگریزوں کی فسطائی غیر ملکی حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کیلئے بیروٹ کے پیر خان مرحوم کے ساتھ ملکر جعلی ٹیکسال سازی بھی کی اس کے باوجود وہ انگریزوں کے ہاتھ نہ لگ سکے، بیروٹ کے اولین ٹرانسپورٹروں میں مولانا عبدالرئوف علوی کا نام ایک روشن مینار کی طرح ہے جنہوں نے پہلی بار آبائی تدریسی پیشہ چھوڑ کر ٹرانسپورٹری اختیار کیا مگر 1919 میں برسالہ کے مقام پر ہونے والےحادثہ کے نتیجہ میں وفات پا گئے تا ہم ان کے بیٹے ڈاکٹر مسعود علوی، پوتی محترمہ فرخ نشتراورپوتے سہیل مسعود علوی شعبہ تعلیم سے ہی وابستہ رہے ہیں۔
اس خانوادے نے 1907میں ماڈرن ایجوکیشن میں بھی قدم رکھاجب بیروٹ میں پہلا پرائمری سکول باقاعدہ قائم کیا گیا، حضرت مولانا اسماعیل علوی اس کے پہلے اول مدرس اور حضرت مولانا سید فضل حسین شاہ مشہدی نائب مدرس تعینات کئے گئے، 1924میں بیروٹ میں پہلا گرلز پرائمری سکول قائم ہوا تو اسی خاندان کی بہو اور مولانا عبدالرئوف علوی مرحوم کی بیوہ عجائب بی بی کو علاقے کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی حیثیت سے اول مدرس زنانہ تعینات کیا گیا، مرحومہ سکینہ بی بی 1944میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوسری اول مدرس تھیں اور بعد میں سکول کی اپ گریڈیشن کے بعد ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائز ہوئیں،بابومحمد عرفان علوی مرحوم اس خاندان کے وہ روشن ستارے ہیں جنہوں نے سابق صدر جنرل ایوب خان کے اے ڈی سی کی حیثیت سے علاقے کے دیگر لوگوں کی طرح اپر دیول کوہالہ روڈ کی تعمیر اور مڈل سکول بیروٹ کو ہائی کا درجہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کیا.
بیروٹ کا خاندان علویہ لمحہ موجود میں بھی اپنے حصہ کا کام یعنی لوگوں کی علمی، دینی اور اب ابلاغی خدمت اپنی بساط سے بڑھ کر کر رہا ہے، اس خانوادے میں اس وقت دو پی ایچ ڈی سکالرز ہیں جن میں ڈاکٹر طاہرہ ہارون علوی کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں ریاضی کی پروفیسر ہیں اور انہوں نے2000 میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پاکستان کی پہلی خاتون کی حیثیت سے ڈاکٹریٹ کی فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کی ہے، وہ بھی پیر بکوٹی کی سوتیلی پڑ پوتی اور سابق ڈی جی ملٹری اکائونٹس بابو محمد عرفان علوی کی صاحبزادی ہیں، دوسرے پی ایچ ڈی سکالر لمیاں لڑاں بیروٹ سے تعلق رکھنے ولے یونس اعوان کےصاحبزادے ڈاکٹر جنید اعوان ہیں، انہوں نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کیا ہے، اس خاندان میں دینی اور ماڈرن سکالرز کی ایک لمبی فہرست ہے، حضرت مولانا دفتر علوی کے بعد حضرت مولانا محمد عبداللہ علوی کا نام آتا ہے، انہوں نے فقہ، علوم القرآن والحدیث، فلسفہ، منطق اور معقول میں دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا انور شاہ کشمیری اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اپنے استاد کے علمی مرتبے اورتحریک آزادی کے سلسلے میں انہیں ان کی تحریک ریشمی رومال سے اتنا عشق تھا کہ جب راقم الحروف پیدا ہوا تو اپنے استاد کی یاد میں اس کانام بھی عبیداللہ علوی رکھا،قیام پاکستان کے بعد وہ سندھ کے شہر ڈگری آگئے، علوی یونانی دواخانہ کے نام سے اپنا طبی کاروبار شروع کیا اور وہاں ہی دارالعلوم علویہ کے نام سے ایک علمی دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جو آج بھی قائم و دائم اور ان کیلئے صدقہ جاریہ ہے، یہاں پر وہ جمیعت العلمائے اسلام کے صوبائی جنرل سیکرٹری تھے اور 1952کی تحریک ختم نبوت میں ایک ماہ تک حیدرآباد جیل میں بھی قید رہے، مولانا عبد الہادی علوی 2005 تک سرکل بکوٹ میں مفتی کے عہدے پر فائز رہے، وہ جامعہ اشرعیہ لاہور سے فارغ التحصیل تھے، کوہسار کے پہلے عربی، فارسی اور اردوکے شاعر ، عالم دین اور ٹیچر مولانا یعقوب علوی بیروٹوی کی علمی، ادبی اور تدریسی خدمات سے کون واقف نہیں، وہ صف صدی تک علم و ادب اور ٹیچنگ کے بے تاج بادشاہ رہے، انہوں نے جہاد کشمیر میں عملی حصہ لیا اور اس دوران وہ اپنی نغمہ سرائی سے مجاہدین کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہے، 1952میں پاکستان کے پہلے الیکشن میں صوبائی امیدوار سردار حسن علی خان کے مقابلے میں حضرت پیر صاحبزادہ حقیق اللہ بکوٹیؒ کی الیکشن مہم میں بھی بھر پور حصہ لیا اور ایک لافانی نظم بھی لکھی ، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں؎
اس طرف انسانیت مجروح و پامال و ذلیل
احترام و عزت انسانیت یکساں ادھر
ہے مسلط اس طرف سینوں میں شوق سروری
خدمت اسلام و مسلم کا جنوں پنہاں ادھر
اس طرف خود غرضی و لا مرکزیت، انتقام
اتباع مرکزیت، قوم پاکستان ادھر
آمریت اور طبقاتی تعصب اس طرف
اسوہ فاروق وبوبکر وعلی و عثمان ادھر
معرکہ آرا ہوئی سلطانیت پھر فقر سے
اے خدا نظر عنایات کرم و احساں ادھر
آخر میں ایک اور ٹیچر کا تذکرہ بھی ضروری ہے، یہ شمالی تحصیل مری کے استاد ٹیچر نور عالم علوی تھے، بے مثل و بے مثال استاد،آج بھی ہزاروں شاگرد ان کا نام فاتحہ پڑھ کر لیتے ہیں، ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ کے سابق وائس پرنسپل یاسر علوی، موجودہ فہیم احمد علوی، حال میں گرلز ہائر سیکنڈری سکول کی ریٹائرڈپرنسپل محترمہ فرخ بی بی، شاعر اور استاد آصف علی خلش، شاعر شاہد اسلام علوی اور نئی نسل کے شاعر شکیب علوی، ملک کے سب سے بڑے اخبار کا سینئر جرنلسٹ راقم الحروف، ملک کے سب سے بڑے علوی اعوان خاندان کے مورخ اور دانشور محبت حسین اعوان کے علاوہ راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں رہنے والے اسی علوی اعوان خاندان کے افراد اپنا اپنا کردار ادا کر ہے ہیں، ان کا پلیٹ فارم تنظیم الاعوان پاکستان اور بیروٹ ہے، یہ تنظیم جو فیصلہ بھی کرتی ہے سارا علوی اعوان خاندان اس کا تابع ہوتا ہے۔
(اس خاندان کے بارے میں انٹر نیٹ پر راقم کےلکھے ہوئے بلاگز بھی ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، سجرہ نسب اور دیگر تفصیلات اس طرح سے ہیں:
(اس خاندان کے بارے میں انٹر نیٹ پر راقم کےلکھے ہوئے بلاگز بھی ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، سجرہ نسب اور دیگر تفصیلات اس طرح سے ہیں: