Tuesday, May 15, 2018

بیروٹ کلاں کے علمی حوالے سے مختصر ترین علوی اعوان قبیلہ کے آخری ٹیچر
 فہیم احمد علوی
 بھی تدریسی فرائض سے سبکدوش
--------------------------
قمی کوٹ، آزاد کشمیر میں علوی آعوان قبیلہ پانچ صدیاں قبل کشمیر کے پہلے مسلمان حکمران رنچن شاہ کے عہد میں آ کر آباد ہوا تھا
--------------------------
بیروٹ کے کاملال دھونڈ عباسی قبیلہ کے سردار محمود خان عرف بھاگو خان اور ان کے ساتھیوں نے علوی اعوانوں کے جد امجد مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی کو اہل خانہ سمیت کھوہاس، بیروٹ میں لا آباد کیا لائے اور ان کی اولادیں جائیداد سمیت جان، مال اور عزت و آبرو کی ضمانت کے تقاضوں کو آج تک نبھا رہی ہیں ۔
--------------------------------
اس قبیلہ نے بھی آج تک کاملال قبیلہ کے اعتماد، اعتبار اور مان کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی اور آج بھی دونوں قبائل ایک دوسرے کی عزت، حرمت اور آبرو کو سانجھا ہی سمجھتے ہیں ۔
--------------------------------
بد قسمتی سے نان بیروٹ پولیٹیکل کیریکٹرز نے دونوں قبائل میں دوریاں پیدا کی ہیں ۔۔۔۔ مگر بھوجل دل کے ساتھ پھر بھی دونوں قبائل سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کے سینے سے ٹھاہ کر کے لگنے کے متمنی ہیں ۔
--------------------------------
ہائر سیکنڈری سکول برائے طلباء بیروٹ کے ایس ایس سی ٹیچر فہیم احمد علوی کی تدریسی فرائض سے سبکدوشی کے ساتھ ہی حضرت مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ سے شروع ہونے والا درس و تدریس کا پونے دو سو سالوں سے زیادہ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے ۔
****************************
 تحقیق و تحریر
------------------------
محمد عبیداللہ علوی
****************************
فہیم احمد علوی کا ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ میں آخری دن ۔۔۔۔۔ ان کے اعزاز میں دی جانے والی الوداعی تقریب میں شرکاء کھانا تناول کر رہے ہیں
******************************* 
     بیروٹ کلاں کے علمی و ادبی حوالے سے مختصر ترین علوی اعوان قبیلہ کے آخری ٹیچر ۔۔۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔۔ بھی سلطنت علم و دانش سے سبکدوش ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس خاندان کی ابھی صرف دو بیٹیاں علم و ادب کے دو ایوانوں میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔ بیروٹ میں ہمارا 1836 سے شروع ہونے والا علم و دانش کا سفر ختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ سنبھال مالی باغ اپنا، ہم تو اپنے گھر چلے ۔۔۔۔۔۔؟
    اٹھارویں صدی کے بہلے ربع کے دوران ۔۔۔۔۔۔ بیروٹ میں آبادی کے بڑھ جانے سے یہاں کے دوسرے بڑے ڈھونڈ عبسی کاملال قبیلہ نے ضرورت محسوس کی کہ اب بگلوٹیاں، بیروٹ کی غوثیہ مسجد کے ساتھ ایک اور مسجد اور مدرسہ کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔ اس قبیلہ کے بزرگ تجارت کے سلسلے میں کشمیر آتے جاتے رہتے تھے اور آزاد کشمیر کے ضلع مظفر آباد کے قمی کوٹ گائوں کے علوی اعوان قبیلہ کے ہاں رکتے ۔۔۔۔ وہاں پر موجود مسجد میں نمازیں ادا کرتے اور فیوض و برکات سمیٹتے ۔۔۔۔ قمی کوٹ میں یہ قبیلہ پانچویں صدی کے کشمیر کے پہلے مسلم حکمران رنچن شاہ کے عہد میں وادی سون سکیسر، میانوالی سے آ کر آباد ہوا تھا اور اس کے ایک بزرگ قاضی حسان علوی کو مسلم کشمیر میں چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز کیا گیا تھا ۔۔۔۔ بیروٹ کے کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے سردار محمود خان عرف بھاگو خان (متوفی 1840ء) نے قبیلہ کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیا اور جرگہ کی صورت میں قمی کوٹ میں مولانا قاضی عبدالشکور علوی ؒ کے پاس آئے اور اپنا مدعا بیان کیا ۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کو عرصہ سے جانتے تھے ۔۔۔۔ رات بھر اس پر فریقین نے غور کیا اور آخر فیصلہ ہوا کہ ۔۔۔۔ ان کے بڑے بیٹے ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ ۔۔۔۔ اہل بیروٹ کی دینی و علمی خدمت کریں گے ۔۔۔۔۔ دوسرے روز ان کی مستقل بیروٹ روانگی کے انتظامات کو آخری شکل دی گئی ۔۔۔۔ اس وفد کا ایک آدمی اسی روز بیروٹ روانہ کیا گیا تا کہ مولانا علویؒ کے قیام و طعام کا بندو بست کیا جا سکے ۔۔۔۔ قمی کوٹ میں مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ کے والد مولانا قاضی عبدالشکور علوی ؒاور ان کی برادری سے ایک معاہدہ بھی طے کیا کیا گیا جس کے مطابق ۔۔۔۔۔
***** بیروٹ کا کاملال قبیلہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ ، ان کے خاندن اور آنے والی نسلوں کو جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرے گا ۔۔۔۔ الحمد للہ کاملال قبیلہ نے اپنے پرکھوں کے وعدے کو لمحہ موجود تک نبھا رہا ہے)
***** میزبان قبیلہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ اور ان کے خاندان کو مالکانہ حقوق پر با پردہ رہائش، اناج کیلئے زرعی اراضی اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرے گا اور اس کے عوض وہ ان کی اولادوں کو مسجد اور مکتب کے ذریعے قرآن و سنت اور مروجہ روایتی تعلیم دینگے ۔۔۔۔ کاملال قبیلہ کے دیگر شادی بیاہ اور مرگ ماتمے کے مذہبی معاملات کی ذمہ داری بھی انہی کی ہو گی ۔۔۔۔ علوی عوان خاندان نے اپنی یہ مذہبی و علمی ذمہ داری ۔۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔۔ کی صورت میں لمحہ موجود تک بحسن و خوبی نبھائی ہے۔
    مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی: اپنی دوسری اہلیہ زلیخا اور چار بیٹوں ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی عبدالعزیز علوی (راقم السطور کے پڑدادا)، مولانا میاں قاضی شرف دین علوی (ٹیچر نور عالم علوی آف ترمٹھیاں کے پڑدادا)، مولانا میاں قاضی غلام رسول علوی (پی آئی اے والے نیاز حسین علوی کے پڑدادا) اور مولانا میاں قاضی اکبر دین علوی (ڈاکٹر مسعود علوی اور بیروٹ کی پہلی پی ایچ ڈی خاتون ڈاکٹر طاہرہ ہارون کے نکڑ دادا) کے ساتھ بیروٹ آئے ۔۔۔۔ سینٹرل بیروٹ کی ڈھوک باغ میں ان کی رہائش کا بندو بست کیا گیا ۔۔۔۔ انہوں نے دوسرے روز ہی اس گھر کے ساتھ دوسرے گھر میں مدرسہ کی بنیاد رکھی، شام کو کھوہاس میں بیروٹ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ۔۔۔۔ اور مسجد کی تعمیر کا دن رات کام شروع ہو گیا اور ایک ہفتے بعد مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ نے پہلی اذان دی اور ظہر کی جماعت سے مسجد میں پنج وقت کی باجماعت نماز کا آغاز ہو گیا اور آج 180 برسوں بعد بھی اس مسجد میں ایک نماز کا تعطل نہیں آیا ۔۔۔۔ مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ اس وقت اسی کوہاس مسجد کی بائیں جانب کھجور کے درخت کی چھائوں میں ابدی نیند سو رہے ہیں اور پانچوں وقت کی نمازوں کی صورت میں ثواب ان کو ایصا ل کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ اللہ رب العزت مولانا میاں قاضی نیک محمد علویؒ، سردار محمود خان عرف بھاگو خانؒ اور ان کے ساتھیوں کی قبروں کو نور علیٰ نور کرے اور انہیں جنت الفردوس میں رسول رحمت ﷺ کی ہم نشینی نصیب فرماوے ۔۔۔۔ آمین
    گزرنے کو تو 180 برس بیت گئے ہیں ۔۔۔۔ اس دوران اس علوی آعاون خاندان نے بیروٹ میں کولالیاں، دستیال برادری کی ڈھیری، جاوا سمیت دیگر مساجد کی خدمت کی ہے ۔۔۔۔ شرقی بیروٹ میں لمیاں لڑاں، چھپڑیاں اور میرے نیں کھیتر کی مساجد کی ذمہ داری بھی اسی خاندان کی رہی ہے ۔۔۔۔ جب 1899 میں ریالہ سے پہلا ورنیکلر پرائمری سکول بیروٹ شفٹ ہوا تو اس کے پہلے ٹیچر مولانا میاں قاضی محمد اسماعیل علوی نے ہیڈ ٹیچر کی صورت میں چارج سنبھالا اور اس سلسلے کے آخری ٹیچر ۔۔۔ فہیم احمد علوی ۔۔۔۔ کی صورت میں آج سبکدوش ہور ہے ۔۔۔۔ یہی نہیں بلکہ جب 1915 میں پہلا پرائمری سکول برائے خواتین بیروٹ میں قائم ہوا تو ۔۔۔۔ اسی علوی اعوان خاندان کی بنی، کہو شرقی سے تعلق رکھنے والی ایک بہو اور سابق پرنسپل ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ برائے خواتین فرخ بی بی کی دادی صاحبہ ۔۔۔۔ عجائب بی بی ۔۔۔۔ پہلی ہیڈ ٹیچر کے علمی منصب پر فائز ہوئیں ۔۔۔۔ اس وقت بھی مولانا میاں قاضی محمد اسماعیل علوی مرحوم کی ایک دختر کوچک اور تین پوتیاں اہل بیروٹ کی علمی خدمات میں مصروف ہیں ۔۔۔۔ تا ہم یہ بات کہتے ہوئے مجھے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ ۔۔۔۔ بیروٹ کے غزنوی میں لمحہ موجود میں کوئی تڑپ ہے اور نہ ایاز ہی اپنی زلفوں میں کسی خم کی ضرورت ہی محسوس کر رہا ہے ۔۔۔۔ دونوں کی باڑیاں بنجر، دونوں راولپنڈی سے ہر روز بیروٹ آنے والے سوجی، چوکر اور میدہ نکلے آٹے، آلودہ پانیوں سے پرورش پانے والی سبزیوں، دالوں اور ہندوانوں کے ذریعے پرسوں کا متوقع روزہ کھولنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔ اسی کاملال قبیلہ کی پونے دو صدیاں بعد آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ڈھوک باغ میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی ہے ۔۔۔۔ یہ بات نہیں کہ مولانا میاں قاضی نیک محمد علوی کی اولاد کی آبادی نہیں بڑھی ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ یہ ساری اولاد روزگار، تعلیم اور دیگر دنیاوی معاملات کے سلسلے میں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور اور کراچی شفٹ ہو چکی ہے ۔۔۔۔ بیروٹ میں چند گھر اس لئے رہ گئے ہیں کہ وہ بھی مقامی ملازمتوں یا روزگار کی وجہ سے مصروف ہیں لیکن سیاسی، قبیلائی اور معاشی حالات اس وقت جو رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ ان کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگلے 30 برسوں میں بوڑھے لوگ اپنی اولادوں کو بتایا کریں گے کہ ۔۔۔۔ بیروٹ میں بھی کوئی علوی اعوان قبیلہ ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔ یا فلاں گھر اس قبیلہ کی آخری نشانی ہے ۔۔۔۔ سدا بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ۔
-------------------------------
منگل15/مئی2018



Thursday, July 14, 2016

تیرہ جولائی ۔۔۔۔۔۔ داستان سرکل بکوٹ کے سرفروشوں کی
**************************
سرکل بکوٹ کے جہاد کشمیر میں پہلے شہید عبدالرحمان علوی
 پیر بکوٹیؒ کے سوتیلے بیٹے تھے
پیغمبر انسانیت نے خواب میں عبدالرحمان علوی اور ان کے بھائی کا ہاتھ پیر بکوٹی کے ہاتھ میں دیا تھا
انگریز حکومت کو مالی نقصان پہنچانے کیلئے انہوں نے بیروٹ خورد کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی تھی
عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہم کرتا تھا
سری نگر میں مہاراجہ کے محل کے سامنے حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی
ایک طرف عبدالرحمان علوی شہادت کا رتبہ پا گئے دوسری طرف پیر بکوٹی کا دل دکھانے پرکی دنیا بھی اجڑ گئی
***************************
تحقیق و تحریر
 محمد عبیداللہ علوی
*************************
اگر آپ بیروٹ جائیں تو ۔۔۔۔۔ اکھوڑاں بازار میں سید احمد شہید اکیڈیمی سے ملحق راستہ سے نیچے چلتے جائیں تو ۔۔۔۔۔ اگے ایک مسجد اور قدیم قبرستان آئے گا، اس کے پہلو سے مزید نیچے اتریں تو ۔۔۔۔۔ نیچھے ڈھلوان میں ایک مسجد دائیں طرف موجود ہے، یہ جامع مسجد کھوہاس کہلاتی ہے، اسے علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی نے اٹھارہ سو اڑتیس میں مقامی کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی دعوت پر بیروٹ آنے کے بعد اسی قبیلہ کی اعانت سے تعمیر کیا جہاں آج بھی پنجگانہ نماز کے علاوہ انیس سو سات سے نماز جمعہ کی باقاعدہ ادائیگی بھی ہو رہی ہے، اسی مسجد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں مجدد کوہسار حضرت میاں فقیراللہ بکوٹی نے بکوٹ ہجرت سے قبل پانچ سال تک امامت اور خطابت کی اور اپنے خطبات سے اہلیان بیروٹ کے دلوں کو گرمایا شاید اسی تبلیغ اسلام کا اثر تھا کہ اہلیان بیروٹ بالخصوص کاملال ڈھونڈ عباسی برادری نے انہیں سترہ کنال اراضی بھی ہبہ کی، انہوں نے یہاں علوی اعوانوں کے قبیلہ کی ایک بیوہ خاتون ستر جان سے عقد بھی کیا جن میں سے ایک بیٹی راحت نور بھی متولد ہوئی اور وہ پوٹھہ شریف کے منہاس خاندان میں بیاہی گئی، اس دختر پیر بکوٹی کا مزار پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کی جامع مسجد کے سائے میں ہے۔ اسی مسجد کی بائیں جانب ایک اور قدیم قبرستان ہے جہاں اسی علوی اعوان اور کاملال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بزرگ بھی ابدی نیند سو رہے ہیں۔
تھوڑا اور آگے جائیں تو نشیب میں ایک برسوں سے اجڑے گھر کی اداس دیواریں نظر آئیں گی، یہ علوی اعوان برادری کا ابتدائی گھر ہے، حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کی فیملی کیلئے انہی کاملال عباسیوں نے تعمیر کر کے دیا تھا، اسی گھر کو انیس سو ایک سے سات تک حضرت میں پیر فقیراللہ بکوٹی نے اپنا گھر اور آستانہ بھی بنایا تھا، اسی گھر میں سرینگر میں سرکل بکوٹ کے پہلے مجاہد اور شہید حضرت مولانا میاں عبدالرحمان علوی نے بھی جنم لیا تھا ۔۔۔۔۔ جو حضرت پیر بکوٹی کا سوتیلا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔ ہوا یوں کہ ۔۔۔۔۔۔ حضرت بکوٹی نے جب بیروٹ میں ورود کیا تو بیروٹ کی پہلی بگلوٹیاں کی مسجد کے ٹرسٹیوں نے انہیں امامت اور خطابت کی پیش کش کی حالانکہ وہاں میاں جیون شاہ کے پوتے اور میاں فضل حسین شاہ کے والد میاں محمد حسین شاہ بھی امام تھے تاہم انہوں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، پیر بکوٹی نے یہاں امامت کے علاوہ ایک لنگر بھی جاری کیا جہاں مسافروں سمیت علاقہ کے غریب عوام بھی پیٹ بھرنے لگے لیکن ایک رات ۔۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔ خواب میں پیغمبر انسانیت کا دیدار ہوا، اپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی کانپ کر اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ لنگر انتظامیہ سے دریافت کیا کہ وہ کون سے بچے ہیں جو اس لنگر سے بھوکے پیاسے واپس جا رہے ہیں، پھر فرمایا کہ کوئی بھی بچہ بغیر کھائے پئے واپس نہ جائے، اگلی رات پھر دیدار مصطفیٰ ﷺْ ہوا، آپ نے پھر فرمایا ۔۔۔۔۔ دو یتیم بچے پھر بھوکے پیاسے گھر واپس چلے گئے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ اس روز بھی پیر بکوٹی کی کیفیت کافی متغیر ہوئی ۔۔۔۔۔ آپ خود لنگر پر بیٹھ گئے، تمام لوگوں سمیت بچوں کو خصوصی طور پر خیال رکھا اور خود بھی بعض بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا اور مطمئن ہو گئے کہ ارشاد رسول کی بجا آوری میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر رات کے پچھلے پہر تیسری بار دیدار رسول ہوا ۔۔۔۔۔ آپ کا چہرہ متغیر تھا، آپ ﷺْ نے دو بچوں کی انگلیاں پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔ میاں فقیراللہ ۔۔۔۔۔ یہ یتیم بچے ۔۔۔۔۔ تمہارے لنگر سے بھوکے پیاسے واپس گھر جا رہے ہیں، ان کا خیال کرو ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی بیدار ہوتے ہی ۔۔۔۔۔۔ اپنے لنگر کی اس جگہ پر بیٹھ گئے جہاں سے لوگ اندر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ کانپ رہے تھے اور نگاہیں ان بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا ۔۔۔۔۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ان دونوں نحیف و نزار بچوں کو دیگر بچے دھکے دے کر پیچھے کی جانب دھکیل رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپ یہ منظر دیکھ کر مزید کانپ گئے ۔۔۔۔۔ اور لپک کر ان دونوں بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔۔۔۔۔ پہلے ان بچوں کو ہاتھ منہ دھلایا اور پھر انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگے ۔۔۔۔۔ راقم کی خاندانی روایات کے مطابق ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹی نے ان بچوں کیلئے نئے کپڑے بھی منگوائے اور ان کو پیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ ان کے گھر بھی تشریف لے گئے اور ان کی والدہ کی خیریت ہی دریافت نہیں کی بلکہ ان بچوں کی والدہ سے کہا کہ اس خاندان کی کفالت انہی کے ذمہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ بچے بیروٹ میں علوی اعوانوں کے جد امجد حضرت مولانا میاں نیک محمد علوی کے پڑ پوتے اور میاں اکبر دین علوی کے صاحبزادے مولانا میں محمد زمان علوی کے بیٹے مولانا میاں عبدالرحمان علوی اور سرکل بکوٹ کی پہلی پی ایچ ڈی اور ماسیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ ہارون کے دادا مولانا میاں محمدعلی علوی تھے ۔۔۔۔۔!
وقت گزرتا رہا ۔۔۔۔۔ دونوں لڑکے بن گئے، انہی کی وساطت سے حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی کے ان کے ماموں مولانا میاں عبدالعزیز علوی سے پیر بکوٹی سے مراسم بنھی  استوار ہوئے اور پھر طویل علمی و دینی محافل بھی شروع ہو گئیں، مولانا میاں عبدالعزیزعلوی مولانا میاں نیک محمد علوی کے بڑے صاحبزادے اور اپنے عہد کے جید عالم دین بھی تھے، ان کے تجیر علمی نے بھی پیر بکوٹی کو بہت متاثر کیا اور آخر کار پیر بکوٹی نے انہیں اپنی فرزندگی میں لینے کی درخواست کی اور مزید کہا کہ ۔۔۔۔۔ وہ ان کی بیوہ بیٹی اور ان کے یتیم بچوں کو باپ کا بھی بھر پور پیار اور شفقت دینے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔۔۔ مولانا میاں عبدالعزیز علوی نے اپنے دیگر بھائیوں سے مشورہ کیا اور پیر بکوٹی کی درخواست قبول کر لی اور اپنی جگہ کھوہاس کی مسجد کی امامت بھی پیش کر دی، اس طرح حضرت پیر بکوٹی بگلوٹیاں سے کھوہاس منتقل ہو گئے اور لنگر کے علاوہ یہاں پر ہی روحانی محافل بھی شروع ہو گئیں، پیر بکوٹی کا عقد مولانا میاں عبدالعزیز علوی کی بیٹی ستر جان سے ہوا اور یہ مثالی جوڑا بیروٹ کی ڈھوک کھوہاس میں تمام تر روحانی فیوض و برکات کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اس وقت پیر بکوٹی یتیم بچوں عبدالرحمان علوی، محمد علی علوی کے علاوہ عبدالرحیم علوی، عبدالطیف علوی، محمد یعقعوب علوی اور محمد ایوب علوی اور ان کی اکلوتی ہمشیرہ زلیخا کے سوتیلے والد بھی بن گئے۔
عبدالرحمان علوی کڑیل جوان تھے، پیر بکوٹی کی محافل بھی کھوہاس بیروٹ میں عروج پر تھیں، وہ اونچی جگہ بیٹھ کر شہادت کی انگلی سے کنکر پیر بکوٹی کو مارتے جو کبھی انہیں لگتے اور کبھی کبھی ان کی محفل میں بیٹھے لوگوں کو، اس محفل کا مزا کرکرا ہو جاتا، پیر بکوٹی رات کو عبدالرحمان علوی کو سمجھانے اپنے پاس بلاتے اور عبدالرحمان علوی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، اس کی شرارتٰیں بدستور جاری رہیں، ایک روز زچ ہو کر پیر بکوٹی نے غصے میں کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ نکیا، می تنگ نہ کر، تہرتی پیر نہ لگسی اے ۔۔۔۔۔۔ اس کے جواب میں ہاتھ کا پنجہ لہراتے ہوئے عبدالرحمان علوی بولا ۔۔۔۔۔ تہرتی ر نہ سہی، اُپریں اُپریں ژے سہی ۔۔۔۔۔۔ اگلے سال پیر بکوٹی للال شریف ہجرت کر گئے ۔۔۔۔۔ عبدالرحمان علوی نے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی، بہترین خطاطی سیکھی جو اس وقت کے اشٹام پیپرز بھی دیکھی جا سکتی ہے، انہوں نے اس وقت کے حالات کے مطابق انگریز حکومت کے خلاف نوجوانوں کا ایک گروپ بھی بنایا اور بکوٹ پولیس کو تنگ کرنے لگے، ایس ایچ او یا دیگر پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی یہ گروپ غلیل سے انہیں پتھر مار کر زخمی کر دیتا، انیس سو ستائیس میں انہوں نے انگریز حکومت کا مالی نقصان پہنچانے کیلئے بیروٹ خورد کی ماخیر لینڈ سلائیڈ کی ایک غار میں جعلی ٹیکسال لگا لی اور اپنے بیروٹ کے ایک دوست پیر خان کے ساتھ مل کر جعلی سکے ڈھالنے لگے، یہ سکے بازار میں پہنچے تو ایک بھونچال آ گیا، ان کے ایک سگے ماموں مولانا میاں محمد جی علوی اس وقت برٹش انٹیلیجنس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، مقامی نمبردار محمد فیروز خان سمیت مولانا میاں محمد جی علوی کو بھی عبدالرحمان علوی اور پیر خان کی ان غیرقانونی سرگرمیوں کا علم تھا مگر ان دونوں حضرات نے کبھی بھی انگریز کے خلاف اس غیر قانونی دھندے کی حکومت کو اطلاع دی نہ ان کو اس کام سے روکا ۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت کی غاصب انگریز حکومت کے خلاف یہ غیر قانونی کام نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا ایک جہاد ہی تھا۔
مولانا عبدالرحمان علوی نے سرکل بکوٹ میں انیس سو چوبیس میں مجاہدین کا ایک گروپ بھی بنایا جو تحریک آزادی کشمیر کیلئے فنڈز اور دیگر وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار تھا، اس کے سربراہ وہ خود تھے اور نائب کی حیثیت سے نوجوان پیر خان ان کے دست راست تھے، سرکل بکوٹ بالخصوص بیروٹ کے بااثر لوگوں کی اخلاقی اور مالی امداد بھی انہیں  حاصل تھی، بیروٹ میں راجہ نذر خان، سردار ولی احمد خان، سردار رستم خان، نمبردار محمد فیروز خان، نذر محمد خان، محمود شاہ، غلام نبی شاہ، ٹھیکیدار محمد امین خان، سردار یعقوب خان، مولانا میر جی علوی، مولانا محمد جی علوی، مولوی غازی اعوان علوی اور بہت سے دیگر لوگوں کی حمایت اور مدد بھی انہیں حاصل تھی، بیروٹ کے ٹرانسپورٹرز ان کی طرف سے فراہم کردہ اسلحہ بسوں کے خفیہ خانوں میں بارہ مولا پہنچاتے جہاں سے کشمیر بھر میں پھیلے مجاہدین کو سپلائی کیا جاتا اس کے علاوہ نقد رقوم بھی یہ ٹرانسپورٹر مجاہدین تک پہنچاتے، انیس سو ستائیس کو مولانا عبدالرحمان علوی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بکوٹ پولیس کو وہ ہاتھ نہ آتے تھے، در اصل انہیں بیروٹ اور باسیاں کے پولیس مخبر پولیس چھاپے سے پہلے ہی آگاہ کر دیتے تھے اور وہ اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے، تاہم انیس سو انتیس میں پولیس تقریباً ان کے سر پر پہنچ گئی، پیر خان تو موجود نہیں تھے،پولیس چھاپے کی اطلاع پر ایک گھنٹہ پہلے وہ ماخیر لینڈ سلائیڈ کے غار سے باہر نکلے، چنجل کے مقام پر پولیس پارٹی سے ملاقات ہوئی، وہ سفید رنگ کے کپڑے اور سفید پگڑی پہنے ہوئے تھے، پولیس نے انہی سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے غار کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ وہ غیر میں بیٹھا حکومت مخالف دھندے میں مشغول ہے، جلدی جائیں کہیں وہ بھاگ نہ جائے ۔۔۔۔۔۔ پولیس وہاں پہنچی تو کوئی نہیں تھا، ادھر مولانا عبدالرحمان علوی اپنے گھر کھوہاس بیروٹ آئے، والدہ، اہلیہ اور اپنے بھائیوں اور بچوں سے آخری ملاقات کی اور دریائے جہلم کو بانڈی بیروٹ سے عبور کر کے کشمیر میں داخل ہو گئے، ساہلیاں میں ان کے ایک بہنوئی رہتے تھے، وہ وہاں ہی قیام پذیر ہوئے اور انہی کے ذریعے مجاہدین سے رابطے شروع کر دئے، راقم کی فیملی روایات کے مطابق چمبیاٹی کے سردار محمد ایوب خان نے انہیں پونچھ سے سری نگر پہنچنے میں ہر طرح کا تعاون کیا، سری نگر پہنچتے ہی انہوں نے مجاہدین کیمپ کو جوائن کیا، ملٹری چھاپہ مار کارروائیوں کی ٹریننگ حاصل کی، اسی دوران آٹھ جولائی انیس سو اکتیس کو ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں سری نگر میں توہین قرآن کا واقعہ ہوا جس کے خلاف کشمیر بھر میں آگ لگ گئی اور پر تشدد ہنگامے شروع ہو گئے، اس موقع پر خانقاہ معلیٰ سرینگر میں نصف لاکھ کشمیری مسلمانوں کا جلسہ عام ہوا جس میں مقررین خصوصاً عبدالقدیر نامی نوجوان نے ایسی دردناک تقریر کی کہ مسلمان ۔۔۔۔۔ اب یا کبھی نہیں ۔۔۔۔۔ کا نعرہ لگا کر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی طرف بڑھنے لگے، یہ تیرہ جولائی اور جمعہ کا دن تھا، نماز جمعہ کی ادائیگی کا وقت بھی آن پہنچا، مسلمانوں نے اذان دینے کیئے اللہ اکبر کی تکبیر بلند کی کہ ۔۔۔۔۔ تڑاخ سے ڈوگرہ فوجی کی گولی موذن کے سینے میں پیوست ہو گئی، دوسرا نمازی آگے بڑھا ور اس نے دوسری تکبیر کہی تو وہ بھی جام شہادت نوش کر گیا۔ مولانا عبدالرحمان علوی بھی آگے بڑھے اور انہوں نے ازان کی تکبیر میں حیّ علی الصلاة کہا ہی تھا کہ ایک اور گولی ان کے سینے میں بھی پیوست ہو گئی، سرکل بکوٹ کا یہ پہلا جوان جہاد آزادی کشمیر کی شاہراہ پر قافلہ شہدائے کشمیر کے ہمراہ باغ بہشت کی جانب رواں دواں ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ چشم فلک نے ان شہدا کا کشمیر میں اس سے پہلے اتنا بڑا جنازہ کبھی نہ دیکھا تھا، نماز جنازہ کے بعد ان شہدا کے جسد خاکی کو سوپور لایا گیا جہاں ان کی تدفین مکمل ہوئی، آج وہاں ان شہدا کے مقبرے موجود ہیں اور وہاں ہر سال عرس ہوتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
مولانا عبدالرحمان علوی کی لمیاں لڑاں بیروٹ کے ممتاز عالم دین مولانا میاں سلطان محمد علوی کی ہمشیرہ صاحب نشاں سے شادی ہو گئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں تین بیٹے عطا فرمائے، سب سے بڑے صاحبزادے فیض عالم علوی، دوسرے محمد اعظم علوی اور تیسرے غلام ربانی علوی تھے۔ فیض عالم علوی کی اہلیہ منہاسہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی تھیں، ان سے ان کی ایک دختر خاتم جان متولد ہوئی جو لمیاں لڑاں بیروٹ کے ہی علوی اعوان قبیلہ کی بہو بنی اور سہراب اعوان کی زوجیت میں آئیں، دوبرس قبل ہی ان کا انتقال ہوا ہے، فیض عالم علوی کے دو نواسے گل عناب اعوان اور افتخار اعوان اور دو نواسیاں ہیں، ان کے دوسرے بیٹے محمد اعظم علوی ہندوستان گئے تو پھر ان کا آج تک کوئی اتا پتہ نہ مل سکا، تیسرے بیٹے غلام ربانی علوی تھے جن کا پے در پے صدمے سہتے سہتے ذہنی توازن خراب ہو گیا، اور وہ ڈھیری شمالی بیروٹ میں صوفی محمد نبی خان مرحوم کے گھر میں رہنے لگے اور وہیں انتقال ہوا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اہلیان سانٹھی بیروٹ کو اپنی درجنوں کنال اراضی بھی فروخت کر ڈالی جس کی رقوم ان کے چچا مولوی ایوب علوی، ڈاکٹر مسعود علوی اور سہراب اعوان کی اہلیہ اور فیض عالم علوی کی بیٹی خاتم جان نے وصول کیں، آج اس دنیا میں مولانا عبدالرحمان علوی کی کوئی اولاد نہیں ہے نہ ہی اہلیان سرکل بکوٹ کو ہی اس عظیم مجاہد اور شہید کے بارے میں ہی کوئی علم ہے ۔۔۔۔۔ بات پھر وہیں آ پہنچتی ہے کہ ۔۔۔۔۔ ایک جانب قدرت نے ان سے تحریک آزادی کشمیر میں کام لیکر انہیں شہید کے درجے پر فائز کرنا تھا اور ان کا بازو پکڑ کر تاجدار انسانیت حضرت محمد مصتفیٰ انہیں کفالت کیلئے حضرت پیر بکوٹی کے سپرد کیا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔ دوسری طرف مولانا عبدالرحمان علوی کا اپنے سوتیلے والد اور اپنے عہد کےمجدد حضرت پیر بکوٹی کا دل دکھانے پر ان کا گھر ہی نہیں بلکہ ان کی دنیا بھی اجڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ان کا کھوہاس بیروٹ میں آبائی گھربھی کھولا (کھنڈر) بنا ہوا نوحہ کناں ہے بلکہ آج ان کا دنیا میں نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف انہی مولانا عبدالرحمان علوی کے چھوٹے بھائی میاں محمد علی علوی کی اولاد میں ان کی پوی ڈاکٹر طاہرہ ہارون ہے جو سرکل بکوٹ کی ریاضی میں نہ صرف پہلی پی ایچ ڈی ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم میں بیروٹ کا ایک معتبر حوالہ بھی ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے ۔۔۔۔۔ اے اہل بصیرت، ان واقعات سے عبرت پکڑو (سورۃ الحشر، آیت نمبر دو)

ماخذ و مراجع 

اعوان اور اعوان گوتیں از محبت حسین اعوان
پاکستان کا سب سے بڑا قبیلہ ۔۔۔ علوی اعوان از ڈاکٹر ظہور اعوان
علوی اعوان قبیلہ کا ترجمان ۔۔۔۔۔ ماہنامہ شعوب کراچی، چیف ایڈیٹر محبت حسین اعوان

علوی اعوان آف بیروٹ

بیروٹ کے علوی اعوان قبیلہ کا شجرہ نسب

بیروٹ میں علوی اعوانوں کا قدیم قبرستان

بیروٹ کی مختصر تاریخ

بیروٹ کے شعرا اور مصنفین 

علوی اعوان قبیلہ (بیروٹ) کی شخصیات 

Saturday, April 23, 2016



ALVI AWAN OF BIROTE
written & searched
by
 MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
***************************************

The Alvi Awan of Birote are a tribe who have been involved in upgrading education, both religious and secular, to the people of Birote for over 150 years. Although according to Islam no individual or groups of people have special status - the elders of the Kamlal branch of the Dhond Abbasi tribe rewarded them with large agricultural land in Central Birote. (Who are Alvi Awans ...........? Read book .....Gorkhas: The Warrior Race..... pp 197)

Introduction to the tribe
The Alvi Awan of Birote belong to the Qutubshahi Awan sub-tribe of the Gondal Golrha (GOHER ALI SHAH) Awan . They settled in Birote on the invitation of the Kamlal Dhond Abbasi tribe from Qummikot, Muzaffarabad, Azad Kashmir. They awarded their forefather Molana Mian Naik Mohammed Alvi agriland in Khoaas, Kolalean, Tahndi and Narhota in Birote. Molana Mian Naik Mohammed Alvi built a mosque and taught the Qur'an and Islamic teachings. There are two branches of Alvi Awans in Union Council Birote:-
NAIK MOHAMMEDAL: Molana Mian Naik Mohammed Alvi encestor of Naik Mohammadal of Birote had four boys named Molana Mian Abdul Aziz, Molana Sharifuddin, Molana Ghulam Rasool and Akber Din. Molana Mian Abdulaziz had taken the charge of Khoas Masque, Mian Ghulam Resool shifted Hotrol (Birote Khurd) and Java, Dhari masques. Other two sons in Juleal and Termuthean shifted and performed religious duties. Mian Mir Ji and Mian Mohammed Ji were two sons of Molana Mian Abdul Aziz, elder brother Mian Mir Ji took the place of vacant Imammat of his father but Mian Mohammed Ji joined British Government service as a sole high qualified person of that time. He was the superintendent of the census department of India and performed duties during the census of Circle Bakote in 1891 and 1901. His elder son Mohammed Suleman Alvi was the first Graduate of Circle Bakote from Gordon College, Rawalpindi in 1918.

Molana Mian Naik Mohammed Alvi
Molana Mian Naik Mohammed Alvi (ãæáÇäÇ ãíÇä äíß ãÍãÏÚáæì) was elder son of Molana Mohammed Abd ul Shukoor Alvi, born in Chand Gran, Union Council Qummikot, District Muzaffarabad in 1783. He got his early education from his father, studied the Quraan and Hadith, primary Persian books as Gulestan, Bostan of Shaikh Saadi [3] Shirazi, Pand Nama Attar, Mathnavi Molana Rumi and other books at Qummikot Madrissa by his uncle Molana Taj Mohammed Alvi. He went to Awankari[1] Madrissa of Molana Mohammed Ajaeb Khan Awan and spent only 18 months and had become a scholar of Quraan, Hadith, Fiqah and other sciences of logic and philosophy of that time.



Family Background
Molana Qazi Mian Naik Mohammed Alvi was the grand son of Hadrat Molana Qazi Mian Abd U Shakoor Alvi who also known as Goondal Khan in Kashmir and was a celebrity of his time. He was a religious scholar and a think tank of Rajas of Muzaffarabad. They granted him land in Qummikot where his ofsprings spreaded. Hadrat Molana Qazi Mian Abd U Shakoor Alvi was also Qazi (Chief Justice) of Muzaffarabad Bumba Dynesty [4] court and minister of religious affair. Kashmiri historian as Mohammad Din Foaq and Molvi Hashmatullah reffered his many decessions and fact finding wisdom. He learned in Dehli at Shah Waliullah Madrissa and representative of Shah Waliullah School of Thought. He had seven sons from three wives.
  1. Hadrat Molana Qazi Mian Jan Mohammad Alvi, forfather of Naik Mohammadal of Birote.
  2. Hadrat Molana Qazi Mian Taj Mohammad Alvi, forfather of Noor Mohammadal of Birote.
  3. Hadrat Molana Qazi Mian Ghulam Mohayudin Alvi.
  4. Hadrat Molana Qazi Mian Said Husain Alvi
  5. Hadrat Molana Qazi Mian Shafi Mohammad Alvi
  6. Hadrat Molana Qazi Mian Noor Mohammad Alvi
  7. Hadrat Molana Qazi Mian Deen Mohammad Alvi

Molana Mian Naik Mohammed Alvi in service of his teacher
Molana Mian Naik Mohammed Alvi returned to his home to Kashmir a few kilometers, he saw a ploughed field and thought that his teacher had no clod for toilet so he collected dozens of clods and returned back to his Madrissa. His teacher asked him why you returned. I was going to my destiny and saw clods and thought that the needs of your toilet were not fulfilled by me so I collected these and returned, please accept this bag of clods. Teacher was surprised and kissed his forehead and asked him to stay with comfort at his house. Next day he demanded for permission to travel his way but teacher refused and said today you would teach students all my students in Madrissa. Ustad ji, wat main tay aalam nhi. (Teacher I am not teacher), he replied but his teacher said, Aj toon putter toon aalam hain, sab khuch too lay laya haay (Son, don’t worry, you had got everything, you were scholar from today). He came at Madrissa and delivered his sermon to student with enthusiasm and full of knowledgeable contact an hours long, discussed Mohammed's journey to Macca to Jerusalem and then to heaven along with angle Jibrail [2] over Burraq[3] in a melodious tone. All students and villagers of Awankari shouted in favor of Mian Naik Mohammed Alvi and teacher announced him as a aalam or scholar of Islam. His teacher Molana Mohammed Ajaeb Khan Awan described Molana Mian Naik Mohammed Alvi about his service of his teacher in his consisted sermon. He also paid tribute to his student know aalam, he would return to his homeland a day after so all students and trustees of Madrissa gave a farewell party in his honor. On the day of his departure all village people gathered, his teacher tied a white turban on his head and presented many gifts, a white horse and an Arabic hand-written manuscript book' (possessed by Mohammed Obaidullah Alvi at this time). He embraced all people, students and at last his teacher Molana Mohammed Ajaeb Khan Awan, and tears were in eyes of both teacher and his student. He started his journey to his homeland in 1806 as an Islamic scholar. He reached at Qummikot and appointed as teacher immediately in his parental madrissa and he started teaching of Quraan, Hadith and Fiqah there.

Molana Mian Naik Mohammed Alvi arrival at Birote
Merchants of Birote went to Mazaffarabat to Srinager, Kashmir for their trade. They had close relationship with Awans of Qummikot Alvi Awan tribe and many time they stayed there to hear religious sermons in Madrissa. Molana Mian Naik Mohammed Alvi was not strange for them and they offered prayers in Qummikot Central Masque many a time. Chiefs of Kamalaal sub tribe of Dhund Abbasi decided to construct a new mosque at Khohas, Central Birote Berote Kalan and they nominated Molana Mian Naik Mohammed Alvi as their Imam and Khateeb on proposal of Sardar Mehmood Khan (Bhago Khan) that was accepted by all other Sardars. They composed a delegation of selected sardars and went to Qummikot. They informed Molana Mian Abd Shakoor Alvi about their decision and requested for a Imam and a Khateeb especially of Molana Mian Naik Mohammed Alvi. They also offered dozens of kenal agri land, a residency for his family. Family members of Molana Mian Naik Mohammed Alvi gathered at Masque and Okayed Birotian delegation request and they got a bonded guarantee to Sardars that they would protect and provide security and patronage to Molana Mian Naik Mohammed Alvi and his family. At that time marriage ceremony of Molana Mian Naik Mohammed Alvi with his uncle hafiza and qarea daughter named Khadija was ready so an invitation was also given to all Sardars and delegation of Birote. They accepted invitation and participated in the wedding ceremony of Molana Mian Naik Mohammed Alvi and enjoyed valima. Guests of Birote on third day met with his family and insisted to leave with new wedded couple among them that was accepted by Molana Mian Abdushakoor Alvi and on next day new wedded couple with delegation departure to Birote with dowry of animals, house holds and with other relatives. They crossed Pattan (Old Kohala) on boats in 1838 and came in Birote at Sardar Mehmood Khan house. Ladies and gents from all the Birote offered congratulation to new couple and presented gifts to them accordingly local customs. A new valima was also held in Bagh, Central Birote in which all communities and tribes participated. Molana Mian Naik Mohammed Alvi offered Azan of Dhuher Prayers loudly at the site of presently Khooas Masque and lead Namazies as Imam first time. He opened a waterfall there also. Family narrations showed that it was the day of 14th Rabi ul Awal. He stayed at Sardar Mehmood Khan House approximately eight months and shifted in his new built house before summer of 1838 in west south of Masque. Kamlals of Birote gifted him 36 kenals agriland and fulfill all his financial and social needs as he demanded. He started five days prayers, Quraan recitation and other religio social duties as religious scholar there. It was a second masque of Birote after Baglotian, southern Birote. Ladies and young girls received religious education in his house by Qarea and Hafiza Khudija, wife of Molana Mian Naik Mohammed Alvi. Quraanic education traditions were continued in Naik Mohammadal Tribe houses till 1990.Molana Mian Abdul Aziz was first son that born in Birote in 1840. He brought up in his mother family in Qummikot, got education there and left to Awankari, Mianwali to his father Madrissa fir higher religious education. He spent seven years there and when he returned, he was also scholar of Islam. In 1842 Molana Mian Ghulam Rasool Alvi born but his mother Khadija expired next year by fatal smallpox and buried at Khoas graveyard, Birote. It is first grave of Molana Mian Naik Mohammed Alvi family. He returned back Qummikot for a month after her forty days funeral ceremony and got married again to her younger sister Salma. She was a wise lady of her time with all qualities of household as well as teaching of women. She was a lady teacher in His family Madrissa in Qummikot. She not only returned all beauties of domestic life but also reorganized activities of grief arrested Molana Mian Naik Mohammed Alvi. She opened a small Madrissa at Bagh in house of Sardar Mehmood Khan and taught girls and ladies same as Qummikot Madrissa. Kamlaals of Birote hailed her noble mission. Molana Mian Sharfdin Alvi born in 1844 and Molana Mian Akber din Alvi in 1848. Two daughters were also born but died in childhood. Three sons of Molana Mian Naik Mohammed Alvi brought up, educated by their mother Salma. Molana Mian Naik Mohammed Alvi engaged in his religio social activities not only in Birote but in Bakote, Molia, Murree and Kashmir. In absence of Molana Mian Naik Mohammed Alvi, his elder son Molana Mian Abdul Aziz Alvi prformed duties of his father and trustees of Masque were satisfied his performance. His stepmother Salma engaged Molana Mian Abdul Aziz Alvi with her nice Rabeaa or Radiya (name not confirmed). Molana Mian Abdul Aziz Alvi became as groom and went to Qummikot with notables of Kamlaals and other tribes of Birote, stayed three days there in which Nikah with Rabea or Radia recited, he accepted her as his better half and returned to Birote in 1867. Molana Mian Naik Mohammed Alvi got fever and suddenly expired on the same day of Juma tul Mubarik (Friday) July 1868 in which his first granddaughter born but not alive. Two funerals were carried at same day in Molana Mian Naik Mohammed Alvi house. Both were buried in Khooas Graveyard, Biriote. Molana Mian Abdul Aziz Alvi with consultation of Kamalaal Sardars and his younger brothers Molana Mian Ghulam Rasool Alvi, Molana Mian Sharf Din and Molana Mian Akber Din Alvi Alvi appointed as second Immam and Khateeb of Grand Second Masque of Birote.

In-Laws of Molana Mian Naik Mohammed Alvi (First Generation)
Molana Mian Abdu r Rehman was his father-in-law with five brothers-in-law and seven sisters-in-law at Qummikot Muzafferabad Azad Kashmir.

Molana Mian Abdul Aziz Alvi and his brothers
Molana Mian Abdul Aziz Alvi started his father religious mission ahead and sent his brothers to Qummikot with his stepmother for further education. They studied primary religious education there and then packed to Awankari Madrisa for higher education. Younger Mian Akber Din Alvi was so attached his mother, he neither attended classes in Madrissa at Qummikot nor taught by his mother Salma and when he returned to Birote he was fourteen year old as an illiterate boy. Molana Mian Abdul Aziz Alvi had taken objection on this situation to his stepmother and she did not satisfy him. Family narrations showed that dispute over Mian Akber Din with his stepmother gradually up worded that Molana Mian Abdul Aziz Alvi was thinking over separation and live in other house but he waited his brothers. His stepmother went to her father’s house in Qummikot with angry feelings among Mian Akber Din Alvi since 1882. His three brothers retuned back in 1882 and with consultations of his brothers and elders of Kamllals he shifted in new built house in Narhota, Birote. He went to Qummikot with his brothers and returned her stepmother back to Birote. Molana Mian Sharf Din Alvi and Molana Mian Ghulam Rasool Alvi also worried about their brother future but their mother not agreed to educate his son Mian Akber Din, caused another separation oh his two sons. Molana Sharf Din Alvi built his house at Tahndi, Birote, and Molana Mian Ghulam Rasool Alvi at Tangan, Kahu Sharqi. Molana Mian Sharf Din appointed as co-imam in Khoas Masque and Molana Ghulam Rasool Alvi appointed as imam at Dheri Masque in Birote. Now four houses of Naik Mohammadals were established in Birote at 1890.
  • Molana Mian Abdul Aziz Alvi
  • Molana Mian Sharf Din Alvi
  • Molana Mian Akber Din Alvi
  • Molana Mian Ghulam Resool Alvi
  • Molana Mian Abdul Aziz Alvi and his family
  • Molana Mian Mir Ji AlviMolana Mian Mohammed Ji Alvi

Molana Mian Mir Ji Alvi and his family
Many peoples of Naik Mohammedal family migrated from Birote to other cities of Pakistan. First of all Molana Mian Mir Ji Alvi migrated to Union Council Badala, in northern Circle Bakote in 1892 as son-in-law of his father-in-laws on their demands. He spent his time there till his inlaws death in 1910, where his sons Mohammed Ibrahim Alvi, Mohammed Ishaq Alvi, Mohammed Ismaeel Alvi, Mohammed Ayoub and Molana Mohammed Yaqoob Alvi Birotvi and five daughters born. The relatives of Molana Mian Mir Ji Alvi in-laws have no soft corner for him because they thought that the property of male childless of their elder was going to Birote related son-in-law, therefore they demanded to vacate the house and agri property of their family and resisted him. Molana Mian Mir Ji Alvi decided to register his case in court of law at Abbottabad for justice and wrote an application for that purpose at night. Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani was there and engaged in worship. He asked to Molana Mian Mir Ji Alvi what were you doing in late night? “I am going to court for justice against my In-laws misunderstanding” he replied. Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani than asked him again to check application by him, he handed over application to him. He checked and teared to pieces this application and said that we were applying for justice to our God. Then Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani advised his brother-in-law to returned back Birote. He than had come back Birote, remarried with a groom of Kalghan of Rahimkot Azad Kashmir in 1910. Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani played a very constructive role in his marriage because all Kalghan family respected him and they were his mystic decuples. Molana Mian Mir Ji Alvi second father-in-law was Mohammed Khan Kalghan, a very religious and spiritual chief of his tribe. Scholar of Islam Deoband, India Molana Mian Mohammed Abdullah Alvi, Molana Mohammed Hanif Alvi and Islamic jurist and council of Circle Bakote Molana Mian Abdul Hadi Alvi were his sons among two daughters. Hadhrat Molana Mian Pir Haqiquullah Bakoti Usmani, younger son of Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani was his son in-law. Now Pir Abdul Majid Bakoti Usmani is son-in-law of Molana Mian Abdul Hadi Alvi and maternal grandson of Molana Mian Mir Ji Alvi.
Molana Mian Mir Ji Alvi's elder son Mohammed Ibrahim Alvi was student of Islamic and Quraanic teaching in Awankari Mianwali where he victimized by fatal and epidemic plague and buried in courtyard of Madrissa in 1895. *His second son Mohammed Ishaq Alvi was in way of Rawalpindi but he encountered with a serpent and by poisonous effect on his body cause colic. He died in Birote in 1901 and buried in Khoas, Birote graveyard.
Mohammed Ismael Alvi was the third son of Molana Mian Mir Ji Alvi and first head teacher of first Governet Venicular Primary School Birote in 1903. He was Khalifa of Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani in Birote till his death. He had four sons and three daughters. 
His elder son was Mohammed Ishaq Alvi (his name was as remembrance of his uncle Mohammed Ishaq Alvi) was first Pak Army personal of family and fought for nation in 1965 and 1971 wars in different sectors in Pakistan. He opened a shop in Birote and enjoyed his life till his death. He had one son Mohammed Ishfaq Alvi and one daughter. His second son was Mohammed Farooq Alvi who was a Pakistan Railway service man and spent all his life out of his area. He settled in Alipur, Rural Islamabad after retirement. He had two sons Mohammed Zulfiqar Alvi (Employ of PENSTIC Islamabad) and younger is Mohammed Shazad Alvi.His third son is Dr. Mohammed Akhlaq Alvi have one son Zaheerudin Baber Alvi and two daughters. Zaheerudin Baber Alvi is in Saudi Arabiea with Sareena Hotals chain. Dr. Mohammed Akhlaq Alvi and his family shifted in Rawalpindi. The youngest son was Aasif Ali Khilish Alvi, who was a poet and teacher in Government Primary School Birote and victims of color blindness. He also died in his prime age. He was not married.
Mohammed Yaqoob Alvi Birotvi was a Urdu, Arabic and Persian Poet of high caliber and leaded Mujahedins (Freedom fighters) of Birote in Kashmir. He wrote a poetry book NAGHMA E JEHAD (Melody of Muslim Holy War) but had lost by his offspring in 2005 earthquake. He was also a teacher and his many students are alive in Circle Bakote. He had three sons and two daughters. His elder son was Khursjid Aalam Alvi, a captain in Pakistan Air Force. He died in his prime age in 1983 and left one son Adnan Ahmed Alvi (working as librarian in Hamderd University in Islamabad) and two daughters. His death shocked his mother and she passed away after two months and his father was paralyzed. His second son was Masood Aalam Alvi, (PTI in Higher Secondary School Birote and died in 1988. His younger son was Shahid Islam Alvi (Pakistan), served in Machine Tools Factory Karachi and Heavy Mechanical Complex Texila. He was also a poet. He died in Birote in 2009. He had four sons, elder is Shakaib Alvi and one daughter.
Mohammed Ayoub Alvi younger brother of Molana Mohammed Ismaeel Alvi was a employ of Canal Department of Sindh Government in 1925-51 and satteled in Digree City of Tharparker. He died by snake biting and buried in Tando Mohammed Khan graveyard in 16 January 1951. He had left one daughter Zabunisa (Zaibi) and she is widow of Kalim u Rehman Awan in Birote.

Molana Mian Mohammed Abdullah Alvi was first son of Molana Mian Mir Ji second wife from Rahimkot, Azad Kashmir. He spent all his life in preaching of Islamic teaching in Digree City of Tharparker and established a madrissa named Jamea Alvia there. He rturned back to Birote in 1961 and stayed there till his death in 17 August 1984. He had two sons, elder is Mohammed Obaidullah Alvi[4][5] (Contants writer of this website, journalist, historian and anthropologist) and younger son is Mohammed Samiullah Alvi (Teacher) and one daughter. Mohammed Obaidullah Alvi have two sons Taha Ahmed Alvi and Shaheer Ahmed Alvi omang four daughters and Mohammed Samiullah Alvi have three sons Mohammed Zakariya Alvi, Muqtasid Alvi and Abtakhi Alvi.
Molana Mohammed Hanif Alvi was unmarried and died in 1997.
The Islamic jurist and council of Circle Bakote Molana Mian Abdul Hadi Alvi was also a scholar of Islam of the last generation. He was a student of Deoband also. He was a Hafiz, Qari and calligrapher of Arabic. He wrote a Quraan scripture by hand and it is now in possession of Mohammed Obaidullah Alvi. He had four sons Mohammed Tahir Alvi (Ex-teacher). Tahir Alvi has two sons Tayyab Tahir Alvi, aircraft mechanics in Karachi and younger Sarmad Tahir Alvi, is a student and three daughters. Mohammed Yasir Alvi (Second Principal of Higher Secondary School Birote) has two sons, elder is Hussamul Hassan Alvi and younger is Wussam ul Hassan, both are students and has no daughter. Faheem Ahmed Alvi (officiating Principal of Higher Secondary School Birote today) is childless and Rashid Ahmed Alvi is unmarried among three living sisters.
Molana Mian Mohammed Ji Alvi and his family
Molana Mian Mohammed Ji Alvi was younger son of Molana Mian Abdul Aziz Alvi and talented modern British Army high profile secular minded Intelligence officer had possessed both religious and modern education. He was Census Officer also. He engaged in many missions in Tibet and Laddakh on special offer of Dogra Raj. His real nephew Molana Abdur Rahman Alvi and his comrade Mohammed Pir Khan of Kolalian, Birote were freedom fighters but Molana Mian Mohammed Ji Alvi never hurted them or made any hurdle in their mission. He spent whole life with connection to Ahmadiyya Movement of Mirza Ghulam Ahmed Qadiani.[6] He lived in Narhota, Birote and every time he engaged in movement. He married first time from Birote and remarried from Danna Kachili, Azad Kashmir after his first wife death in 1938. He had two sons Mohammed Sulaiman Alvi and Mohammed Luqman Alvi. Mohammed Suleman Alvi was a talented and bright student of Gordon College Rawalpindi and got first A class position in graduation exam held in 1918 under Punjab University Lahore. He was first student editor of College Magazine The Gordonian first issue published in 1916. He was a high class Nastaliq, Nasakh and Thuluth calligrapher of his time and a masterpiece of his calligraphy displayed in Punjab University Museum Lahore with his name caption. He claimed that he would reborn the sciences of grammar of Arabic, English and Persian languages if these had been abolished from the pages of literature and history. He died unfortunately in a road occident in Rawalpindi and buried in Pir Wadhahi Graveyard in 1919.
Third Generation's in laws
Molana Mian Mir Ji Alvi had two wives, first from Union Council Badala, Circle Bakote and other from Rahimkot, Azad Kashmir. His first father-in-law was unknown but the second was Mohammed Khan Kalgan. His brothers-in-law (Sisters’ husband) were Molana Mian Mohammed Zaman Alvi, Molana Mian Noor Husain Alvi and Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani. Molana Mian Mohammed Zaman Alvi died in 1910 and Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani married widow of Molana Mian Mohammed Zaman Alvi in 1913. His sisters-in-law were on in Sahlian (District Dhirkot) and other in Gharhi Dopatta, Azad Kashmir. His sons-in-law were Molana Mian Mohammed Yousaf Alvi, Molana Mian Abdulatif Alvi, Hadhrat Molana Mian Pir Atiqullah Bakoti Usmani (Elder son of Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani) and Molana Abdu Rahim Qureshi of Basian.
Molana Mian Mohammed Ji Alvi had two fathers-in-law, one from Birote Mistry Feroz Din, water mil owner of Jandran ni Tahri, Kahu West, Birote. His first wife died in 1937 then remarried with daughter of Mian Barkat ullah of Danna Kachili, Azad Kashmir. He has no daughter-in-law because his both sons Mohammed Suleman Alvi and Mohammed Luqman Alvi died in their prime age. He had five daughters and their husbands, his sons-in-law were Ghulam Rabbani of Reala Malkote (Divorced), Mian Abdul Shah of Birote, Mian Abdur Rashid Awan of Birote, Molvi Ghulam Nabi Alvi of Birote, Molana Mian Mohammed Ismaeel alvi and Molana Mian Mohammed Abdul Hadi alvi. His other brothers-in-law (Sisters-in-law husband) were unknown.
Fourth Generation's in laws
Molana Mian Mohammad Ismael Alvi first father-in-law was Mian Mohammed Zaman Alvi and brothers-in-law were Molana Mian Abdurehman Alvi, Mian Mohammed Abduraheem Alvi, Mian Mohammed Ali Alvi, Mian Abdul Lateef Alvi, Mian Mohammed Ayoub Alvi and Mian Mohammed Yaqoob Alvi Kufri. His second father-in-law was Molana Mian Mohammed Ji Alvi and brothers-in-law were Mohammed Suleman Alvi and Mohammed Luqman Alvi, other brothers-in-law (sisters-in-law husband) were Molvi Ghulam Rabbani of Reala Malkot, Molana Mian Ghulam Nabi Alvi Birote, Molana Mian Abdur Rasheed Alvi of Lammean Larhan, Birote and Syed Abdul Shah Birote. His sons-in-law are three Mohammed Ajmal Qureshi and Mohammed Anwer Qureshi of Termuthean and Safder Husain of Jhika Gali, Murree.
Mian Mohammed Ayoub Alvi first father-in-law was Syed Noor Husain Shah of Birote and brothers-in-law were Syed Mir Ji Shah and his three stepbrothers and a n other brother-in-law (husband of sister-in-law) was Syed Ghulam Nabi Shah, father of Dr. Ilyas Shah. (Syed Ghulam Nabi Shah, his younger brother Syed Mehmood Shah, Contractor Mohammed Amin Khan and Raja Nazar Khan jointly established Allied Chiragh Din Transport Company [7][8][9] and started transport on Rawalpindi Srinager root. This marriage was not long survived and divorced in 1948. His second father-in-law was Molvi Abdur Rehman of Kohrhi Azad Kashmir. He died in 1952 by snake biting in Digree City of Therparker, Sindh. His daughter Zaibun Nisa was born after his death. His son-in-law was Kalim ur Rahman Awan of Birote.
Molana Mian Mohammed Yaqoob Alvi Birotvi father-in-law was Molana Mian Mohammed Zaman Alvi and brother-in-law were Molana Mian Mohammed Yousaf Alvi and Molana Mian Mohammed Shareef Alvi and another brother-in-law (sister-in-law husband) was Molana Mian Mohammed Abdul Majeed Qureshi of Mohrha, Birote Khurd. He had three sons-in-law, one was his nephew Zahur ul Haq but he did not survive and divorced. His second son-in-law was Akseer Ahmed Qureshi of Sehr Hadot, Murree. His third son-in-law was (name not known) of Rawalpindi.
Molana Mian Mohammed Abdullah Alvi father-in-law was Syed Fazal Husain Shah, his brothers-in-law were Mumtaz Shsh and his five brothers, an other brothers-in-law (sisters-in-law husband) were Molana Mohammed Yousaf Awan of Bhan, Birote Khurd, Molana Hakim Qazi Zafeer ul Haq Alvi Chishti [10] of Basian and Mohammed Abdur Razzaq of Sehr Hadote, Murree. His son-in-law is Naseer Ahmed Awan son of Molana Mohammed Yousaf Awan of Bahn, Birote Khrd, now living in Bhara Kahu, Islamabad. Molana Hakim Qazi Zafeer ul Haq Alvi Chishti was renowned herbal doctor who was personal Physician of Hafeez Jullundhri [11] (Composer of Pakistan National Anthem) [12] and ex President of Pakistan Muhammad Zia-ul-Haq.[13]
Molana Mian Abdul Hadi Alvi father-in-law was his real uncle Molana Mian Mohammed Ji Alvi and other brothers-in-law (sisters-in-law husband) were Molvi Ghulam Rabbani of Reala Malkot, Molana Mian Ghulam Nabi Alvi, Molana Mian Abdur Rasheed Alvi of Lammean Larhan, Birote, Molana Mian Mohammed Ismaeel Alvi and Syed Abdul Shah. His three sons-in-law, first Pir Abdul Majid Bakoti Usmani (grandson of Hadhrat Molana Mian Pir Faqirullah Bakoti Usmani), second is Zulfiqar Ahmed Awan and third is Jawaid Akhter Awan in Alipur, Islamabad.


Fifth Generation's in laws

Mohammed Ishaq Alvi was elder son of Molana Mian Mohammed Ismaeel Alvi, a soldier (Soobdar) of Pakistan Army, involved in 1965 and 1971 Pak India Wars. His first better half was his uncle Molana Mian Mohammed Ayoub Alvi widow, married in 1957 but not survived and divorced same year. Widow of Molana Mian Mohammed Ayoub Alvi, Mrs. Shareefan Bi Bi was a nice and developed minded lady of his time and got physical and educational growth in Digri [14] City of Sindh. She spent only two hundred days of life with her late sweetheart in prime age of 17 years and full of love but unseen tragedy of death could not forget her unforgettable past. She had one baby and it was impossible for her to accept young and virgon Mohammed Ishaq Alvi. Her sister-in-law Isam Jan (wife of Molana Ghulam Nabi Alvi) told that she was not adjusted herself in Birote strange family environment and she was tearing 24 hours a day and 7 days a week. Mohammed Ishaq Alvi family summoned her father Hakeem Molana Mian Abdur Rehman Awan and discussed her issue and than decided for separation. She insisted for her baby Zaib u Nisa but refused and snatched her weeping baby by her in laws Molana Mian Mohammed Ismaeel Alvi and Molana Mian Mohammed Yaqoob Alvi. Mrs. Shareefan Bi Bi kissed her piece of heart last moment, handed over to Isam Jan and left Narhota, Birote. (How her orphan baby survived and brought up, will be discussed in Molana Mian Sharfdin Alvi cotants). His second father-in-law was Mian Mohammed Ayoub Alvi of Khoas, Birote. His brothers-in-law were Zafeer ul Haq Alvi, Rekhan Alvi (Birote), Anwar ul Haq Alvi (Karachi) and Obaid ul Haq Alvi (Murree).
Mohammed Farooq Alvi Father-in-law was Molana Mian Mohammed Yousaf Alvi of Tahndi, Birote. His brothers-in-law were Haji Habib u Rehman Awan (Rawalpindi), Khalil u Rehman Awan, Siddiq u Rehman Awan, Shafiq u Rehman Awan, Fazal u Rehman Awan, Shuaib u Rehman Awan and Kalim u Rehman Awan. His one brother-in-law (sister-in-law husband) were Mohammed Reaz Awn of Ali Poor Islamabad and second (Name not found) from Golrha Shareef, Islamabad.
Mohammed Akhlaq Alvi father-in-law was (Name not found) from Barhean,[15] Galyat. His brothers-in-law are jawaid Awan, Shahid Awan and Pervaiz Awan and one sisters-in-law living in Aliote [16]
Asif Ali Khilash Alvi was unmeried and died in 1987.
Khurshid Aalam was a Senior Tech in Pakistan Air Force [6] and his father-in-law Molana Abdul Haq Awan of Kohi, Union Council Aiyote, Murree, belonged to Janeal Awan sub tribe of Alvi Awans. His five brothers-in-laws are Mohammed Abbas Awan, Mohammed Amin Awan, Mohammed Yasin Awan, Mohammed Iftekhar Awan and Mohammed Ozair Awan, other one brother-in-law (sister-in-law husband) is Raja Mohammed Aziz Awan. His brothers-in-law (sisters' husbands) were Akseer Qureshi of Sehr Hadot, Murre and other was Haji Mohammed Shareef from Rawalpindi.
Masood Aalam was unmarried and died in 1987.
Shahid Islam had two fathers-in-law; one was Haji Habib U Rehman Awan of Rawalpindi but couple divorced in 1992. He has one daughter Sumera Shahid from his first wife married with Aamir Awan and she is living in Islamabad now married his second father-in-law was the same as his elder brother Khurshid Aalam Alvi.
Mohammed Obaidullah Alvi father-in-law was Master Khateeb u Rehman Jadoon of Basian and his brothers-in-laws are Tariq Javaid Jadoon and Babu Israr Ahmed Jadoon. Other brothers-in-law (sisters-in-law husband) are Mazhar ul Haq Awan of Bhara Kahu Islamabad, (Mazhar ul Haq Awan and his wife are expired) and Irshad Baig Khan of Chameati, Dhir Kot, Azad Kashmir. Nasir Ahmed Awan is also his brother-in-law of Bhan, Birote Khurd now settled in Bhara Kahu, Islamabad.
Mohammed Samiullah Alvi Father-in-law was Qazi Ilyas of Bakote has no brother-in-law. His sisters-in-law are living in Ayoubia and Aliabad.
Mohammed Tahir alvi father-in-law was Mohammed Farooq Alvi of Alipoor Islamabad. His two brothers-in-law on is Zulfiqar Ahmed Alvi and second is Shazad Ahmed Alvi. His other one brother-in-law (Sister-in-law husband) is Mohammed Asgher Qureshi of Termuthean. His three sons-in-laws one is Mohammed Tahir of Kahu East, second is Nazir Ahmed Qureshi of Pattan Kalan, Circle Bakote and satteled in Mansehra and third is Ata ur Rehman Awan of Birote.
Mohammed Yasir father-in-law is Molana Hafiz u Rehman Qureshi of Basian, satteled in Rawalpindi, brothers-in-law are Mati u Rehman Qureshi and Anis u Rehman Qureshi and renowned stage artist Mustefa Chand Qureshi. He has one married sister-in-law living in Rawalpindi.
Fahim Ahmed Alvi father-in-law was Syed Yousaf Shah of Birote and four brothers-in-law are Shokat Shah in Lahore, Liaqat Shah Birote, Sadaqat Shah Muzafferabad AJK and Mati u Rasool Shah Lahore. His sisters-in-laws are living in Texila, other passed away in road accident in Rawalpindi. He has no son or daughter.
Mohammed Rashid is unmarried and living in Birote.
Sixth Generation's in laws
Zulfiqar Ahmed Alvi father-in-law was Molana Mian Abdul Hadi Alvi, brother-in-laws are Mohammed Tahir Alvi, Mohammed Yasir Alvi, Fahim Ahmed Alvi and Rasid Alvi, His brother-in-law (Sister-in-law husband) is one and he called Mohammed Asgher Qureshi of Termuthean. His other brothers-in-law (sisters husband) are Sahibzada Pir Abdul Majid Bakoti Usmani of Bakote Shareef and Jawaid Akhter Awan of Alipoor, Islamabad.
Shahzad Ahmed Alvi got marriage from Golrha Shareef, Islamabad. His in-laws are living in Islamabad and Rawalpindi.
Ashfaq Alvi father-in-law was Kalim u Rehaman Awan and mother-in-law is Zaib u Nisa Alvi. His brothers-in-laws are Shahpal Awan living in Lahore and (name not found) is employ of National Bank of Pakistan, Birote branch. His other brothers-in-law (sisters-in-law husband) (Name not found) are living in Karachi, Ayoubia and Termithean.
Zahir u Din Baber Alvi got meried from Barhean, Galyat. His-in-laws are relatives of his mother. His father-in-law and brothers-in-law names are not found. They are living in Barian,[15][15] Bhara Kahu, Islamabad and Rawalpindi. His own father, mother, wife and a minor child Mohammed Abdullah Alvi also migrated from Birote to Rawalpindi permanently.
All sixth married generation is offspring of Molana Mian Ismaeel Alvi only.